Description
تفصیل
بعض طالب علم درس گاہوں میں اپنے سبق کو مکمل طور پر نہیں سمجھ پاتے اور اُن کی ذہنی استعداد دوسرے بچوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے چنانچہ ایسے بچوں کے والدین اُن بچوں کے لیے گھر پر پرائیویٹ ٹیوشن کا انتظام کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے کسی ماہر ٹیوٹر کا انتخاب کرتے ہیںجو اُن بچوں کو بہترین انداز سے وقت کی پابندی کرتے ہوئے پڑھا سکے۔
آج کل ٹیوشن ایک کاربار کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ایک ہی محلہ میں دس کوچنگ سینٹرز اور ٹیوشن مراکز قائم کیے جارہے ہیں جنہیں دیکھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی کہ آخر اسکولوں اور کالجوں میں کیا پڑھائی ہو رہی ہے جو اِس اضافی پڑھائی کی ضرورت پڑ رہی ہے۔کوچنگ سینٹرز کے ماحول اور اُن کے طریقۂ تدریس پر تو بحث نہیں کی جائے گی کہ "اظہر من الشّمس" ہے لیکن اس بات پر دُکھ ضرور ہوتا ہے کہ ٹیوٹرز حضرات نے اس کاربار میں یہ غور کرنا بھی ترک فرمادیا ہے کہ مستحق طالب علم جو ان کی بھاری فیس کی ادائیگی نہیں کرسکتا وہ کیسے پڑھے گا؟
رہی سہی کسر "ٹیوٹرز اکیڈمیز" نے پوری کردی ہے جو پیشہ ور ٹیوٹرز کو ٹیوشن دلوا کر ٹھیک ٹھاک کمیشن حاصل کرتی ہیں ۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ٹیوشن لینے(پڑھنے) والے طالب علم ٹیوشن کا بتلاتے ہوئے شرماتے تھے کہ یہ طالب علم کی علمی کمزوری کی علامت تھی لیکن آج کے دور میں بچّے کو اسکول کی پڑھائی کے ساتھ لازمی طور پر ٹیوشن بھی چاہئیے۔
ناطقہ سر بہ گریباں ہے ،اسے کیا کہئیے؟