Shair

شعر

بارش کی دعاؤں میں نمی آنکھ کی مل جائے
جذبے کی کبھی اتنی رفاقت بھی بہت تھی

(پروین ‌شاکر)

پھلوں کی باغ بانی میں تو بارش کی دعا ہوگی
گزرتے خوب صورت بادلوں کو کون دیکھے گا

(بشیر بدر)

بارش

ایک ہی بارش برس رہی ہے چاروں جانب
بام و در پر… شجر حجر پر
گھاس کے اُجلے نرم بدن اور ٹین کی چھت پر
شاخ شاخ میں اُگنے والے برگ و ثمر پر‘
لیکن اس کی دل میں اُترتی مُگّھم سی آواز کے اندر
جانے کتنی آوازیں ہیں…!!
قطرہ قطرہ دل میں اُترنے ‘ پھیلنے والی آوازیں
جن کو ہم محسوس تو کرسکتے ہیں لیکن
لفظوں میں دوہرا نہیں پاتے
جانتے ہیں‘ سمجھا نہیں پاتے
جیسے پت جھڑ کے موسم میں ایک ہی پیڑ پہ اُگنے والے
ہر پتّے پر ایسا ایک سماں ہوتا ہے
جو بس اُس کا ہی ہوتا ہے
جیسے ایک ہی دُھن کے اندر بجنے والے ساز
اور اُن کی آواز…
کھڑکی کے شیشوں پر پڑتی بوندوں کی آواز کا جادُو
رِم جھم کے آہنگ میں ڈھل کر سرگوشی بن جاتا ہے
اور لہُو کے خلیے اُس کی باتیں سُن لگ جاتے ہیں‘
ماضی‘ حال اور مستقبل ‘ تینوں کے چہرے
گڈ مڈ سے ہوجاتے ہیں
آپس میں کھو جاتے ہیں
چاروں جانب ایک دھنک کا پردہ سا لہراتا ہے
وقت کا پہیّہ چلتے چلتے‘ تھوڑی دیر کو تھم جاتا ہے

(امجد ‌اسلام ‌امجد)

میں اب کی فصل بارش میں بناتا اس کا پر نالا
جو ہوتا بانس کا ٹونٹا الف چاک گریباں کا

(ظریف لکھنؤی)

آنکھ اور منظر کی وسعت میں چاروں جانب بارش ہے
اور بارش مین‘ دُور کہیں اِک گھر ہے جس کی
ایک ایک اینٹ پہ تیرے میرے خواب لکھے ہیں
اور اُس گھر کو جانے والی کچھ گلیاں ہیں
جن میں ہم دونوں کے سائے تنہا تنہا بھیگ رہے ہیں
دروازے پر قفل پڑا ہے اور دریچے سُونے ہیں
دیواروں پر جمی ہُوئی کائی میں چھُپ کر
موسم ہم کو دیکھ رہے ہیں
کتنے بادل‘ ہم دونوں کی آنکھ سے اوجھل
برس برس کر گُزر چُکے ہیں‘

ایک کمی سی‘
ایک نمی سی‘
چاروں جانب پھیل رہی ہے‘
کئی زمانے ایک ہی پَل میں
باہم مل کر بھیگ رہے ہیں
اندر یادیں سُوکھ رہی ہیں
باہر منظر بھیگ رہے ہیں

(امجد ‌اسلام ‌امجد)

بے موسم بارش کی صورت، دیر تلک اور دُور تلک
تیرے دیارِ حُسن پہ میں بھی کِن مِن کِن مِن برسوں گا

(امجد اسلام امجد)

First Previous
1 2 3 4 5 6
Next Last
Page 1 of 6
Pinterest Share