Shair

شعر

لفظ تو سب کے اک جیسے ہیں، کیسے بات کھلے؟
دنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے!

(امجد اسلام امجد)

ضبط تھا جب تئیں چاہت نہ ہوئی تھی ظاہر
اشک نے بہ کے مرے چہرے پہ طوفان کیا

(میر تقی میر)

اس کی چاہت کی چاندنی ہوگی
خوب صورت سی زندگی ہوگی

(بشیر بدر)

کسِ نے چاہت میں نہیں دکھ پائے
پیار کرکے کِسے ایدا نہ ہوئی

(الماس ِ درخشاں)

غرق دریائے خجالت ہوگئے چاہت سے ہم
آبرو جتنی بہم پہنچائی تھی پانی ہوگئی

(رشک)

کچھ ایسی بے سکونی ہے وفا کی سرزمینوں میں
کہ جو اہلِ محبت ک سدا بے چین رکھتی ہے
کہ جیسے پھول میں خوشبو‘ کہ جیسے ہاتھ میں پارا
کہ جیسے شام کا تارا
محبت کرنے والوں کی سحر راتوں میں رہتی ہے
گُماں کے شاخچوں میں آشیاں بنتا ہے اُلفت کا!
یہ عینِ وصل میں بھی ہجر کے خدشوں میں رہتی ہے
محبت کے مُسافر زندگی جب کاٹ چکتے ہیں
تھکن کی کرچیاں چنتے ‘ وفا کی اجرکیں پہنے
سمے کی رہگزر کی آخری سرحد پہ رکتے ہیں
تو کوئی ڈوبتی سانسوں کی ڈوری تھام کر
دھیرے سے کہتا ہے‘
’’یہ سچ ہے نا…!
ہماری زندگی اِک دوسرے کے نام لکھی تھی!
دُھندلکا سا جو آنکھوں کے قریب و دُور پھیلا ہے
اِسی کا نام چاہت ہے!
تمہیں مجھ سے محبت تھی
تمہیں مجھ سے محبت ہے!!‘‘
محبت کی طبیعت میں
یہ کیسا بچپنا قدرت نے رکھا ہے!

(امجد اسلام امجد)

First Previous
1 2 3 4
Next Last
Page 1 of 4
Pinterest Share