Shair

شعر

کرتی ہیں ہر شام یہ بِنتی ،آنکھیں ریت بھری
روشن ہو اے امن کے تارے ، ظلم کے سورج، ڈھل

(امجداسلام امجد)

واں جہاں خاک کے برابر ہے
قدر ہفت آسمانِ ظلم شعار

(میر تقی میر)

کسی پہ لطف و کرم کسی کے، کسی پہ ظلم و ستم کسی کے
کسے پڑی ہے میاں غرض اب جو کوئی کھولے بھرم کسی کا

(نظیر)

آنے والا کل

نصف صدی ہونے کو آئی
میرا گھر اور میری بستی
ظُلم کی اندھی آگ میں جل جل راکھ میں ڈھلتے جاتے ہیں
میرے لوگ اور میرے بچّے
خوابوں اور سرابوں کے اِک جال میں اُلجھے
کٹتے‘ مرتے‘ جاتے ہیں
چاروں جانب ایک لہُو کی دَلدل ہے
گلی گلی تعزیر کے پہرے‘ کوچہ کوچہ مقتل ہے
اور یہ دُنیا…!
عالمگیر اُخوّت کی تقدیس کی پہرے دار یہ دنیا
ہم کو جلتے‘ کٹتے‘ مرتے‘
دیکھتی ہے اور چُپ رہتی ہے
زور آور کے ظلم کا سایا پَل پَل لمبا ہوتا ہے
وادی کی ہر شام کا چہرہ خُون میں لتھڑا ہوتا ہے

لیکن یہ جو خونِ شہیداں کی شمعیں ہیں
جب تک ان کی لَویں سلامت!
جب تک اِن کی آگ فروزاں!
درد کی آخری حد پہ بھی یہ دل کو سہارا ہوتا ہے
ہر اک کالی رات کے پیچھے ایک سویرا ہوتا ہے!

(امجد ‌اسلام ‌امجد)

جب ایسا بھائی ظلم کی تیغوں میں آڑ ہو
پھر کس طرح نہ بھائی کی چھاتی پہاڑ ہو

(انیس)

ظلم سہہ کر ترے کوچہ سے چلے تھے ہربار
یاد کیں پچھلی جو باتیں ووہیں فی الفور رہے

(جرات)

First Previous
1 2 3 4 5 6 7 8 9 10
Next Last
Page 1 of 15
Pinterest Share