ہیں جو صاحب درد اون کو زہر ہے سامان عیش
موت کا سامان زخمی گنتے ہیں مہتاب کو
(دیوان ناسخ)
|
ہے ضرر میرے مقدر میں اثر کے بعد
زلف سے زہر ملا شیر و شکر کے بدلے
(واجد علی شاہ)
|
خرد کا زہر عدم موت ہے جوانی کی
وہ خوش نصیب ہے جو مرد ہوشمند نہیں
(عبدالحمید عدم)
|
لذتِ زہر غم فرصتِ دلداراں سے
ہووے منہ میں جنھوں کی شہد و شکر مت پوچھو
(میر تقی میر)
|
مجھ کو سواد خط نہیں اور عشق ہے دو حرف
جس کا نہ پیش ہے نہ زہر ہے نہ زیر ہے
(میرحسن)
|
ہے قہر وہ سرمہ تلا تلا
کچھ زہر وہ کاجل گھلا گھلا
(طبقات الشعرائ( مشتاق))
|