میری جوتی سے زہر کھایا ہے
مجھ کو کس بات پر ڈرایا ہے
(شوق قدوائی)
|
کھلتے ہیں ہر اک شاخ پر مُرجھائے ہوئے پھول
کیا زہر گُھلا ہے نفسِ بادِ صبا میں
(رئیس امروہوی)
|
لگا میٹھا برس جب سے یہ صورت زہر لگتی ہے
کہیں مشاطہ کر پیغام اب مصری کی نسبت کا
(جان صاحب)
|
سبزانِ شہر اکثر درپے ہیں آبرو کے
اب زہر پاس اپنے ہم بھی منگا رکھیں گے
(میر تقی میر)
|
چڑھے گا زہر خوشبو کا اُسے آہستہ آہستہ
کبھی بھگتے گا وہ خمیازہ پھولوں کے مسلنے کا
(اقبال ساجد)
|
گالی سے لب شیریں کو بس تلخ نہ کیجے
جو گڑ دیئے مرتا ہے اسے زہر نہ دیجے
(مصحفی)
|