دودھ اُترا ہے مری چھاتی میں پیارے آؤ
ہاتھ پھیلاتی ہے ماں پاس ہمارے آؤ
(مونس)
|
ہر دھ میں جس کا جی موا کیا ہے پلنگ نہالی اسے
سکھ ہے تو ماں جی کوں بھلا سونا زمیں کا ٹاٹ
(ہاشمی)
|
پردیس میں کیونکر انہیں دشمن سے اماں ہو
جن بچوں کے سر پر نہ تو باہا ہو نہ ماں ہو
(انیس)
|
خیمے میں آئے روتے ہوئے اکبر حزیں
چھاتی لگایا ماں نے پھوپی نے بلائیں لیں
(انیس)
|
کلی کلی میں ہے دھرتی کے دودھ کی خوشبو
تمام پھول اُسی ایک ماں کے جائے ہیں
(احسان دانش)
|
پروین کے ’’گِیتو‘‘ کے لیے ایک نظم
ہاں مری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے!
بُجھ گئیں آج وہ آنکھیں کہ جہاں
تیرے سپنوں کے سِوا کُچھ بھی نہ رکھا اُس نے‘
کِتنے خوابوں سے‘ سرابوں سے الُجھ کر گُزری
تب کہیں تجھ کو‘ ترے پیار کو پایا اُس نے
تو وہ ‘‘خُوشبو‘‘تھا کہ جس کی خاطر
اُس نے اِس باغ کی ہر چیز سے ’’انکار‘‘ کیا
دشتِ ’’صد برگ‘‘ میں وہ خُود سے رہی محوِ کلام
اپنے رنگوں سے تری راہ کو گلزار کیا
اے مِری بہن کے ہر خواب کی منزل ’’گِیتو‘‘
رونقِ ’’ماہِ تمام‘‘
سوگیا آج وہ اِک ذہن بھی مٹی کے تلے
جس کی آواز میں مہتاب سفر کرتے تھے
شاعری جس کی اثاثہ تھی جواں جذبوں کا
جس کی توصیف سبھی اہلِ ہُنر کرتے تھے
ہاں مِری جان‘ مِرے چاند سے خواہر زادے
وہ جِسے قبر کی مٹّی میں دبا آئے ہیں
وہ تری ماں ہی نہ تھی
پُورے اِک عہد کا اعزاز تھی وہ
جِس کے لہجے سے مہکتا تھا یہ منظر سارا
ایسی آواز تھی وہ
کِس کو معلوم تھا ’’خوشبو‘‘ کی سَفر میں جس کو
مسئلہ پُھول کا بے چین کیے رکھتا ہے
اپنے دامن میں لیے
کُو بَکُو پھیلتی اِک بات شناسائی کی
اِس نمائش گہ ہستی سے گُزر جائے گی
دیکھتے دیکھتے مٹی مین اُتر جائے گی
ایسے چُپ چاپ بِکھر جائے گی
(امجد اسلام امجد)
|