کام آئی محمد کے نواسے کی گزارش
اللہ نے کی اس پہ درُ لعل کی بارش
(حیدر حسین)
|
بارش
ایک ہی بارش برس رہی ہے چاروں جانب
بام و در پر… شجر حجر پر
گھاس کے اُجلے نرم بدن اور ٹین کی چھت پر
شاخ شاخ میں اُگنے والے برگ و ثمر پر‘
لیکن اس کی دل میں اُترتی مُگّھم سی آواز کے اندر
جانے کتنی آوازیں ہیں…!!
قطرہ قطرہ دل میں اُترنے ‘ پھیلنے والی آوازیں
جن کو ہم محسوس تو کرسکتے ہیں لیکن
لفظوں میں دوہرا نہیں پاتے
جانتے ہیں‘ سمجھا نہیں پاتے
جیسے پت جھڑ کے موسم میں ایک ہی پیڑ پہ اُگنے والے
ہر پتّے پر ایسا ایک سماں ہوتا ہے
جو بس اُس کا ہی ہوتا ہے
جیسے ایک ہی دُھن کے اندر بجنے والے ساز
اور اُن کی آواز…
کھڑکی کے شیشوں پر پڑتی بوندوں کی آواز کا جادُو
رِم جھم کے آہنگ میں ڈھل کر سرگوشی بن جاتا ہے
اور لہُو کے خلیے اُس کی باتیں سُن لگ جاتے ہیں‘
ماضی‘ حال اور مستقبل ‘ تینوں کے چہرے
گڈ مڈ سے ہوجاتے ہیں
آپس میں کھو جاتے ہیں
چاروں جانب ایک دھنک کا پردہ سا لہراتا ہے
وقت کا پہیّہ چلتے چلتے‘ تھوڑی دیر کو تھم جاتا ہے
(امجد اسلام امجد)
|
روتے روتے یوں دیدہ خود کام سفید
جوشِ بارش سے ہوں جُون ابرِ سیہ فام سفید
(محب)
|
بارش کی آواز سے امجد
شہر کا چہرہ کِھل اٹھا ہے
(امجد اسلام امجد)
|
پیڑوں کی طرح حُسن کی بارش میں نہا لوں
بادل کی طرح جھوم کے گھر آؤں کسی دن
(امجد اسلام امجد)
|
وہ تیروں کی بارش وہ یداللہ کا جانی
پچوبیس پہر گزرے کہ پایا نہیں پانی
(نجم (مصور حسین))
|