وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
میرے دونوں پہلوؤں میں دلِ بیقرار ہوتا
(غالب)
|
ہیلن
(مارلو کے اشعار کا آزاد ترجمہ)
’’یہی وہ چہرہ تھا
جس کی خاطر ہزار ہا بادبان کُھلے تھے
اسی کی خاطر
منار ایلم کے راکھ بن کر بھسم ہوئے تھے
اے میری جانِ بہار ہیلن!
طلسمِ بوسہ سے میری ہستی امر بنادے
(یہ اس کے ہونٹوں کے لمسِ شیریں میں کیا کشش ہے کہ روح تحلیل ہورہی ہے)
اِک اور بوسہ
کہ میری رُوحِ پریدہ میرے بدن میں پلٹے
یہ آرزو ہے کہ ان لبوں کے بہشت سائے میں عُمر کاٹوں
کہ ساری دُنیا کے نقش باطل
بس ایک نقشِ ثبات ہیلن
سوائے ہیلن کے سب فنا ہے
کہ ہے دلیلِ حیات ہیلن!
اے میری ہیلن!
تری طلب میں ہر ایک ذلّت مجھے گوارا
میں اپنا گھر بارِ اپنا نام و نمود تجھ پر نثار کردوں
جو حکم دے وہ سوانگ بھرلوں
ہر ایک دیوار ڈھا کے تیرا وصال جیتوں
کہ ساری دنیا کے رنج و غم کے بدل پہ بھاری ہے
تیرے ہونٹوں کا ایک بوسہ
سُبک مثالِ ہوائے شامِ وصال‘ ہیلن!
ستارے پوشاک ہیں تری
اور تیرا چہرہ‘ تمام سیّارگاں کے چہروں سے بڑھ کے روشن
شعاعِ حسنِ اَزل سے خُوشتر ہیں تیرے جلوے
تُمہیں ہو میری وفا کی منزل…!
تُمہیں ہو کشتی‘ تمہیں ہو ساحل‘‘
(امجد اسلام امجد)
|
حسرت ہے اس کو نکلے نہ بسمل کی آرزو
بوری کرے خدا مرے قائل کی آرزو
(آفتاب داغ)
|
دونو مل کے لاک آرزو ہور جاؤ
کہے شہ ترا درد ہمناں کوں آؤ
(قطب مشتری)
|
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
(میر تقی میر)
|
تجھ سے ملے نہ تھے تو کوئی آرزو نہ تھی
دیکھا تجھے تو تیرے طلب گار ہوگئے
(صہبا اختر)
|