تھّرا کے بس کھڑے کے یونہیں رہ گئے کھڑے
منہ سے نہ کچھ کہا مگر آنسو امڈ پڑے
(یاور اعظمی)
|
سنتے ہی اس کے ، شمع کے آنسو ہوئے رواں
جب بات چل پڑی ،مرے دل کی گداز کی
(شہیدی)
|
دلِ عاشق میں کرے کیونکہ نہ آنسو سُوراخ
اسی الماس سے جاتا ہے یہ بیندھا گوہر
(ذوق)
|
آنکھوں سے جب آنسو بہتے ہیں آجائے کوئی تو خیر نہیں
ظالم ہے یہ دنیا دل کو یہاں بھا جائے کوئی تو خیر نہیں
(اختر شیرانی)
|
کھڑی ہیں موقف فریاد پر آنکھوں میں آنسو ہیں
نظر اُسکے کرم پر دل میں حسرت ہائے پنہانی
(عزیز لکھنؤی)
|
آنکھوں سے اپنی آنسو کچھ ایسے پھوٹ نکلے
فوارے کے کسی نے جیسے ہو نل کو توڑا
(انشا)
|