سر ھسین سے آواز یہ ہوئی پیدا
میں ہوں علی کا پسر جان فاطمہ زہر
(فیض بھرت پوری)
|
چھپتی ہے ڈھال کے گھونگھٹ میں نکلتی ہے کبھی
خون پیتی ہے کبھی زہر اگلتی ہے کبھی
(عروج)
|
عشق کا زہر اوس سوں کیوں او تیرے (کذا)
ناگ تجہ زلف کا جسے چٹکا
(داؤد اورنگ آبادی)
|
وہ سب کچھ سنی ان سنی کرگئے
رہے ہم یہاں زہر اگلتے ہوئے
(ظہیر دہلوی)
|
گالی سے لب شیریں کو بس تلخ نہ کیجے
جو گڑ دیئے مرتا ہے اسے زہر نہ دیجے
(مصحفی)
|
نگاہیں ہیں کہ اک پیمانہ زہر ہلا ہل ہیں
ہیں افعی کا کلیں اور عقرب جرارہ ہیں ابرو
(عزیز لکھنؤی)
|