ہونٹ پپڑاے جو اس کی گرمئی صحبت سے رات
جھاڑ میں شمعیں پگھل کر موم روغن ہو گئیں
(امانت)
|
برہا ڈسن کے درد تھیں بیاکل پڑے نت زرد ہو
بے کس ہونٹ جا بیل تے جیوں پات بپیلا جھڑ پڑے
(شاہی)
|
میں تو چپ ہوں وہ ہونٹ چاٹے ہے
کیا کہوں ریجھنے کی جا ہے یہ
(میر)
|
پھوٹیں گے اب نہ ہونٹ کی ڈالی پہ کیا گلاب!
آئے گی اب نہ لوٹ کے آنکھوں میں کیا، وہ نیند!
(امجداسلام امجد)
|
دو کالے ہونٹ ، جام سمجھ کر چڑھا گئے
وہ آب جس سے میں نے وضو تک کیا نہ تھا
(بشیر بدر)
|
طلب جو ہو بھی تو ہم ہونٹ بند رکھتے ہیں
کہ ہم انا کا عَلم سربلند رکھتے ہیں
(جمشید مسرور)
|