شہ بولے کلیجے کا مرے درد وہ جانے
جس کا کہ پسر قتل ہو اکبر کے برابر
(دبیر)
|
ڈرا کہ از درون درد منداں
کہ می سو زدزِ آتش سنگ منداں
(افضل جھنجھانوی)
|
نشستِ درد بدلی ہے تو اب دل
ذرا پہلو بدلنا چاہتا ہے
(امجد اسلام امجد)
|
ہَونی۔ انہونی
بادل ہوں یا کہ دریا‘ دونوں نہیں رُکیں گے
صحرا کی ریت یونہی بازو کشا رہے گی!
موسم ہو یا کہ لمحہ‘ دونوں نہیں رُکیں گے
بے چین منظروں میں بے کل دُعا رہے گی!
سپنا ہو یا کہ سایا‘ دونوں نہیں رُکیں گے
رستوں میں ہاتھ ملتی پاگل ہُوا رہے گی!
آنکھیں مری ہوں یا ہو چہرا ترا اے جاناں
اس گرد بادِ غم میں دونوں ہی خاک ہوں گے
دونوں نہیں رہیں گے!
لیکن یہ خاک اپنی اِس خاکداں سے اُٹھ کر
تاروں میں جا رہے گی
جو درد کے مسافر‘ آئیں گے بعد اپنے
اُن کے لیے وفا کا یہ راستہ رہے گی
(امجد اسلام امجد)
|
درد سے کی جو میں نے بیتابی
دست نازک سے دیر تک دابی
(میر)
|
دل عشق کا ہمیشہ حریف نبرد تھا
اب جس جگہ کہ داغ ہے یاں آگے درد تھا
(میر)
|