ہرنی سی ایک آنکھ کی مستی میں قید تھی
اِک عُمر جس کی کھوج میں پھرتا رہا‘ وہ نیند
(امجد اسلام امجد)
|
کچھ رَت جگے سے جاگتی آنکھوں میں رہ گئے
زنجیرِ انتظار کا تھا سلسلہ‘ وہ نیند
(امجد اسلام امجد)
|
جو دل رہ انہ چین سے تو ان کی نیند اچٹ گئی
میرے قریب ساری رات آنکھوں ہی میں کٹ گئی
(شوق قدوائی)
|
لگا مردے کو میرے دیکھ کر وہ نا سمجھ کہنے
جوانی کی ہے نیند اس کو کہ اس غفلت سے سوتا ہے
(میر)
|
امجد ہماری آنکھ میں لَوٹی نہ پھر کبھی
اُس بے وفا کے ساتھ گئی بے وفا‘ وہ نیند
(امجد اسلام امجد)
|
شبوں کو نیند آتی ہی نہیں ہے
طبیعت چین پاتی ہی نہیں ہے
(ابنِ انشا)
|