Description
تفصیل
سید محمد رضا ، امیدؔ فاضلی 31 اگست 1923ء انڈیا میں پیدا ہوئے ۔معروف ترین اردو شاعر۔ساٹھ کی دہائی میں پاکستان آئے اور یہاں کے مشاعروں میں باقاعدگی سے حصہ لینے لگے ۔آپ کی شاعری میں کلاسیکی رنگ پایا جاتا ہے ۔غزل اور مرثیہ خاس اصنافِ سخن ہیں ۔اکثر اُمیدؔ فاضلی کے مراثی پر میر انیسؔ کے مرثیوں کا گُمان گزرتا ہے ۔ساٹھ اور ستّر کی دہائیوں کے سیاسی بحران بھی اُمیدؔ فاضلی کی شاعری کے خاص موضوعات رہے ۔28 ستمبر 2005ء کو کراچی میں انتقال کیا ۔
مجموعہ کلام :
امیدؔ فاضلی چار عدد شعری مجموعوں کے مالک ہیں ۔ان میں سب سے زیادہ مقبول ’’ دریا آخر دریا ہے ‘‘ ہوا ۔ کلام :
سنگ جب آئینہ دکھاتا ہے
تیشہ کیا کیا نظر چُراتا ہے
سلسلہ پیاس کا بتاتا ہے
پیاس دریا کہاں بُجھاتا ہے
ریگزاروں میں جیسے تپتی دھوپ
یوں بھی اس کا خیال آتا ہے
سُن رہا ہوں خرامِ عمر کی چاپ
عکس آواز بنتا جاتا ہے
وہ بھی کیا شخص ہے کہ پاس آکر
فاصلے دور تک بچھاتا ہے
گھر تو ایسا کہاں تھا لیکن
در بدر ہیں تو یاد آتا ہے