Description
تفصیل
معروف اردو شاعر ، 3 اگست 1940 ء پیدائش بمقام لکھنؤ (انڈیا) ، بقیدِ حیات ( اگست 2012 ء)۔کئی شعری مجموعوں اور تنقیدی کتابوں کے خالق۔محمد صابر خاندانی نام ۔والد : محمد افضل شیخ ، والدہ : محمودہ خانم ۔والد کی وفات کے بعد تعلیمی سلسلے کو خیر آباد کہنا پڑا اور مالی مشکلات کی بنا پر ایک عارضی ملازمت کا سہارا لیا۔جاذبؔ نے اپنے خالد زاد بھائی اور شاعر شمیمؔ لکھنوی سے شاعرانہ اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی اور بہت نو عمری سے ہی مشقِ سخن شروع کردی۔۵۰ ء کی دہائی میں لاہور آئے اور ایک چھاپے خانے میں ملازمت کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی کہنا شروع کردیں ۔اُس زمانے میں شاکر دہلوی اور شوکت ہاشمی نے آپ کی تخلیقی صلاحیتوں کو پہچانا اور شہہ بخشی۔ان بزرگوں کے سمجھانے پر جاذب قریشی نے رات کے ایک اسکول میں داخلہ لے کر اپنے تعلیمی سلسلے کو از سرِ نو شروع کیا۔لاہور میں کالج کے زمانے میں آپ کی ملاقاتیں حبیب جالب سے بھی ہوتی رہیں۔۶۰ء کی دہائی کے آغاز میں جاذب کراچی آگئے اور پھر یہیں کے ہورہے۔یہاں کئی ادبی پرچوں میں لکھا ۔
تصانیف :
تخلیقی آواز ۔ آنکھ اور چراغ ۔ شاعری اور تہذیب ۔ نیند کا ریشم ۔ پہچان ۔ اُجلی آوازیں ۔ جھرنے ۔ نعت کے جدید رنگ ۔ میری شاعری میری مصوری وغیرہ
نمونہ کلام :
اُجاڑ لمحوں کی داستانیں جو تم کہو تو سنائیں تم کو
بہت سا ہم جاگتے رہے ہیں چلو تھوڑا سا جگائیں تم کو
تم ہی ہو جو روشنی سی بن کر ہماری آنکھوں میں آبسی ہو
جب اپنی آنکھیں ہی کہہ دیا ہے تو پھر بھلا کیوں رُلائیں تم کو
غبار آلود راہوں میں تلاش کر کر کے تھک گئے ہیں
کہاں پہ جا کے بسے ہوئے ہو کہاں سے ہن ڈھونڈ لائیں تم کو
کہو کہ جاذبؔ یہ جھوٹ ہے نا کہ تم نے اُس کو بھلا دیا ہے
ابھی تلک جس کی شوخ یادیں ہر ایک لمحے ستائیں تم کو