ہر صدف بلورسے شفاف تھی ریگ بھی اب گہرسے صاف تھی
(نظیر)
|
جس نے اس دنیا میں آکر ایک دن بھی پی نہ بھنگ اس نے سچ پوچھوتو کیا دکیھا جہاں کا آب ورنگ
(نظیر)
|
ستم یہ دیکھ اک آتش زدی بلبل جو چہکاری تولی پھر راہ جنگل کی نکل اس طور یک باری
(نظیر)
|
کیا تونگر کیا غنی کیا پیر اور کیا بالکا سب کے دل کو فکر ہے دن رات آتے دال کا
(نظیر)
|
زخم شانوں کے تری زلفوں نے اے وعدہ خلاف آخرش لیت و لعل سے آج کل کر بھردییے
(نظیر)
|
جب میں روتا ہوں تو آنکھوں سے برس جاتی ہے کبھی ساون کی جھڑی اور کبھی بھادوں کی بھرن
(نظیر)
|