غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
(غالب)
|
تھی وہ اک شخص کے تصوّر سے اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
(غالب)
|
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
(غالب)
|
ڈھونڈے ہے اُس مغنئ آتش نفس کو جی جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے
(غالب)
|
زندگی میں تو وہ محفل سے اٹھادیتے تھے دیکھوں اب مرگئے پر کون اٹھاتا ہے مجھے
(غالب)
|
زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لئے
(غالب)
|