ظلم کی طرح نکالی ستم ایجاد کیا عین شادی میں دلِ شاد کو ناشاد کیا
(واسوخت امانت)
|
کیا سنبھلے جس پہ ظلم کا یوں آسماں گرے دل تھام کر زمیں پہ امام زماں گرے
(انیس)
|
خوب تھے وے دن کہ ہم تیرے گرفتاروں میں تھے غمزدوں‘ اندوہ گینوں‘ ظلم کے ماروں میں تھے
(میر تقی میر)
|
سو ظلم کے رہتے ہیں سزاوار ہمیشہ ہم بیگنہ اُس کے ہیں گنہگار ہمیشہ
(میر تقی میر)
|
ہر موڑ پر ہیں ظلم کے پہرے لگے ہوئے چلنا پڑے گا وقت کی رفتار دیکھ کر
(نامعلوم)
|
اٹھے نہ ظلم تو چلا پڑے ہیں اے شوق آپ بڑا گھمنڈ تھا حضرت کو برد باری کا
(شوق قدوائی)
|