تنقید کا اصول ہے جمہوریت کی جان مسلک ہے ناقدان وطن کا مگر غلط
(رئیس امروہوی)
|
کیا پھرے وہ وطن آوارہ گیا اب سو ہی دل گم کر دہ کی کچھ خیر خبر مت پوچھو
(میر)
|
لاگی ہے لگن تم سوں چھڑا کون سکے گا، ہے کس میں یہ قدرت اب مج کوں وطن اپنے لجا کون سکے گا، کر دل سوں رفاقت
(ولی)
|
قائم وطن کے بیچ تو آسودگی نہ ڈھونڈو پر خار گلستان میں ہمیشہ ہیں پائے گل
(قائم)
|
وطن کی جس سے سبکی ہو نہ لب تک بھی وہ حزف آئے کہیں ہندوستاں کے نام پر دھّیا نہ آ جائے
(اختر (ہری چند))
|
ممبئی تک ترے مشتاق چلے آئے ہیں تیرے دیرینہ رفیقان وطن تیرے لیے!
(اختر شیرانی)
|