وہ سب کچھ سنی ان سنی کر گئے رہے ہم یہاں زہر اگلتے ہوئے
(ظہیر دہلوی)
|
جو زہر پی چکا ہوں تمہیں نے مجھے دیا اب تم تو زندگی کی دعائیں مجھے نہ دو
(احمد فراز)
|
عجیب زہر تھا محرومیوں کا حاصل بھی بدن پہ چل نہ سکا‘ روح تک اُتر بھی گیا
(جمشید مسرور)
|
میری جوتی سے زہر کھایا ہے مجھ کو کس بات پر ڈرایا ہے
(شوق قدوائی)
|
ڈمرو بجا کے وہ جو اتارے ہیں زہر مار آپ ہی وہ کھیلتے ہیں ہلا سر زمیں پہ مار
(نظیر)
|
ہے ضرر میرے مقدر میں اثر کے بعد زلف سے زہر ملا شیر و شکر کے بدلے
(واجد علی شاہ)
|