اک شغل ہوا ہے کف افسوس کا مکنا ہر وقت کی یہ ہاتھ گھسائی نہیں جاتی
(صابر دہلوی)
|
اب گئے اُس کے جُز افسوس نہیں کچھ حاصل حیف صد حیف کہ کچھ قدر نہ جانی اس کی
(میر تقی میر)
|
افسوس کہ ان بتوں کے ہاتھوں اب آن نبی اثر خدا ہے
(اثر)
|
لگے گی ہاتھ کب وہ گوری ابھری گلت‘ ہے ظالم کف افسوس جس کے واسطے مل مل کے نالاں ہوں
(جرات)
|
افسوس کچھ نہ میری رہائی کا ڈھب ہوا چھوٹا ادھر قفس سے ادھر میں طلب ہوا
(مظہر عشق)
|
نین یہاں پایا سو اس کو ہے وہاں حسرت و افسوس و اندوہ و ندم
(شاہ کمال)
|