افسوس وے شہید کہ جو قتل گاہ میں لگتے ہی اُس کے ہاتھ کی تلوار مرگئے
(میر تقی میر)
|
جب وہ دریا کے کنارے گے مارے افسوس آپ صدمے سے ہوئے گور کنارے افسوس
(اوج لکھنوی)
|
کسی کو آب و ہوا موافق ہوئی نہ افسوس اس چمن کی ہمیشہ تھی نالہ کش عنادل، گلوں نے تا عمر خون تھوکا
(شاد عظیم آبادی)
|
موئے آغاز الفت میں ہمم افسوس اسے بھی رہ گئی حسرت جفا کی
(مومن)
|
گویاں نہ کسی کو آئے افسوس حالت تو ہے اپنی جائے افسوس
(قائم)
|
افسوس کے اشعار نے پکڑا ہے یہ رتبہ ہر طفل کے ہاتھوں میں ہیں دیوان کے ٹکڑے
(افسوس)
|