لڑ گئیں آنکھیں اٹھائی دل نے چوٹ یہ تماشائی عبث گھائل ہوا
(میر)
|
وہ آنکھیں آج ستارے تراشتی دیکھیں جنہوں نے رنگِ تبسّم دیا زمانے کو
(بیگم سحاب قزلباش)
|
پلا ساقیا بادہ لعل گوں کہ ہو جائیں سرخ آنکھیں مانند خوں
(میر)
|
وہ چہرہ کہ برق طور آنکھیں جھپکائے وہ ماتھا چندر لوک جس سے شرمائے
(فراق)
|
مشکیزہ لیے پانی جو بھرنے کو تھے آئے دریا کے حبابوں سے رہے آنکھیں لگائے
(شمیم)
|
وہ دکھنے ہمیں ٹک بیماری میں نہ آیا سوبار آنکھیں کھولیں بالیں سے سراٹھایا
(میر)
|