سنتے ہی اس کے ، شمع کے آنسو ہوئے رواں جب بات چل پڑی ،مرے دل کی گداز کی
(شہیدی)
|
سوزش بہت ہو دل میں تو آنسو کو پی نہ جا کرتا ہے کام آگ کا ایسی جلن میں آب
(میر)
|
شمول خون دل سے ہو گیا گل رنگ یا شاید تمہارے رنگ عارض کا اثر ہے میرے آنسو میں
(نقوش مانی)
|
مژہ پر چڑھ آنسو کیا نٹھ کا سانگ بدوں گا نہ میں اس کی یہ بھی کلا
(اظفری)
|
ہوں وہ غمدیدہ گرا نظروں سے اک دم میں وزیر کی جگہ بھی جو کسی آنکھ میں آنسو کی طرح
(وزیر)
|
مچا تھا شہر میں کُہرام کل سورج کے مرنے پر تیری آنکھوں سے لیکن ایک آنسو بھی نہیں نکلا
(اقبال ساجد)
|