دل ہے داغ جگر ہے ٹکڑے آنسو سارے خون ہوئے لوہو پانی ایک کرے یہ عشق لالہ عذاراں ہے
(میر تقی میر)
|
صبا سے کرتے ہیں غربت نصیب ذکرِ وطن تو چشم صبح میں آنسو ابھرنے لگتے ہیں
(فیض احمد فیض)
|
شب گریہ کہ وابستہ مری دل شکنی تھی جو بوند تھی آنسو کی سو ہیرے کی کنی تھی
(قائم)
|
شام کے پیر کی سرمئی شاخ پر پتیوں میں چھپا کوئی جگنو بھی ہے ساحلوں پرپڑی سیپیوں میں کہیں جھلملاتا ہوا ایک آنسو بھی ہے
(بشیر بدر)
|
بس یہی سوچ کے پی جاتا ہوں آنسو اے دوست جانے کس کس کی نظر دامنِ تر تک پہنچے!
(نامعلوم)
|
اٹھانابار منت شاق تھا پیراہن تن کا ہوئے خشک آنکھ میں آنسو لیا احساں نہ دامن کا
(نسیم دہلوی)
|