Word of the dayآج کا لفظ

Martello

لطف و کرم

MEANS: ملک کی حفاظت کے لئے ساحلی قلعہ بندی

معنی: حق اور فضل

Listen to Urdu Pronunciationالفاظ کے تلفظ سنئیے

Couplet of the day

آج کا شعر

Click on the below image to open up the complete image gallery. مکمل گیلری کو دیکھنے کے لئے نیچے دی گئی تصویر پر کلک کریں۔

Urdu Encyclopedia

اردو انسائیکلوپیڈیا

حسرتؔ موہانی

Description

تفصیل

سید فضل الحسن نام ، حسرتؔ تخلص تھا ، یکم جنوری 1875ء موہان ، ضلع اُناؤ میں پیدا ہوئے اور 13 مئی 1951ء کو لکھنؤ میں انتقال کیا۔لکھنؤ کے ’’باغ مولانا انوار‘‘ میں مدفون ہیں ۔ والد : سید اظہر حسین ، ابتدائی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اور ۱۹۰۳ ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی۔اے کیا ۔ نو عمری سے شاعری کا سلسلہ جاری تھا اور اکثر اپنا کلام تسلیم لکھنوی کو دکھاتے رہتے تھے ۔بیسویں صدی کے عظیم اردو شاعر،شاعری میں نت نئے تجربات و خیالات کو پیش کیا ۔کسی ایک رُخ یا نظریے کے شاعر نہیں تھے بلکہ رومان ، سماجی حقائق ، سیاست و مقامی تہذیب کے مختلف زاویے اُن کی دائرۂ فکر کا حصہ ہیں ۔’’رئیس المتغزلین ‘‘ کہلائے اور واقعی اس خطاب کے سو فیصدی حق دار قرا پائے۔حسرتؔ نے اپنی شاعری میں ’’غزل‘‘ کو اپنی تمام تر خوبیوں اور مہارت کے ساتھ پیش کیا ۔آپ کے ہاں عشق بھی ’’احترام‘‘ کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔خود ایک غزل میں کہتے ہیں : ؂ دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا شیوۂ عشق نھیں حسن کو رُسوا کرنا مجازی محبوب حسرت ؔ اور حالیؔ دونوں کے بس کی بات نہ تھی ،چنانچہ اپنی پہلی بیگم ’’نعیمہ بیگم‘‘ سے شدید محبت کرتے تھے اور جب نعیمہ بیگم کا انتقال ہو گیا تو اکثر راتوں کو بیدار ہوجاتے اور اپنی بیٹی سے کہتے کہ رات تمہاری اماں ہمارے خواب میں آئیں تھیں ، انہوں نے شرما کر دوپٹا سر پر اوڑھ رکھا تھا ، لوگ اُن کی بات پر خاطر خواہ تو جہ نہ دیا کرتے لیکن حسرت کا یہ جنون روز افزوں بڑھتا رہا اور اسی حال میں انھوں نے اپنی شُہرۂ آفاق غزل کہی : چُپکے چُپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے حسرتؔ تحریکِ پاکستان کے بھی نمایاں کارکن رہے اور اس سلسلے میں بارہا قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ، اُن کی قوتِ مدافعت کا انتہائی پِیری میں بھی یہ عالم تھا کہ جب پولیس اُن کا گرفتار کرکے لے جا رہی ہوتی تو وہ دونوں مُٹھیوں میں گھاس کو پکڑ لیا کرتے اور گرفتاری نہیں دیا کرتے تھے۔لیکن انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں: ہے مشقِ سخن جاری ، چکّی کی مشقت بھی اِک طُرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی جو چاہے قسم لے لو ، تم اور بھی کھل کھیلو پر ہم سے قسم لے لو ، کی ہو جو شکایت بھی ایک اور غزل میں فرماتے ہیں : کٹ گیا قید میں ماہِ رمضان بھی حسرت ؔ گرچہ سامان سحر کا تھا ، نہ افطاری کا 1903ء میں حسرتؔ موہانی نے علی گڑھ سے اپنا پرچا ’’ اردوے معلیٰ‘‘ جاری کیا اور اسی دوران شعراے متقدمین کے دوواین کا انتخاب کرنا شروع کیا۔اس دوران حسرتؔ ’’سودیشی تحریکوں ‘‘ میں بھی حصہ لیتے رہے ،پہلے کانگریس میں تھے لیکن حکومتِ وقت کانگریس کے خلاف تھی چنانچہ 1907ء میں حسرتؔ ایک مضمون کی پاداش میں جیل بھیج دیے گئے ۔اس کے بعد قیامِ پاکستان تک کئی مرتبہ جیل گئے ۔اس دوران ان کی مالی حالت تباہ ہوچکی تھی اور ’’اردوے معلّیٰ ‘‘ بھی بند ہو چکا تھا ۔لیکن حسرت وہ تھے جنہوں نے ۱۹۲۱ء میں احمد آباد میں ہندُستان کی مکمل آزادی کی قرارداد پیش کی تھی چنانچہ وہ ان ہتھکنڈوں سے ہارنے والے نھیں تھے ۔انہوں نے تنِ تنہا لگ بھگ چالیس سال تک ’’اردوے معلّیٰ‘‘ شایع کیا اور اپنے بہترین سیاسی افکار اس پرچے میں پیش کیے۔اسی ادبی پرچے میں حسرتؔ نے ’’میر تقی میرؔ ‘‘ کے ۷۲ نشتر پیش کیے اور میرؔ کے بَہَتَّر بہترین اشعار کا انتخاب کیا ۔حسرتؔ کا سلسلہ نسب ’’امام علی موسیٰ رضا ‘‘ سے ملتا ہے۔ حسرتؔ موہانی نے بڑی بہترین شاعری کی اور آپ کی کلیات میں سات ہزار سے زیادہ منتخب اشعار ہیں۔۱۹۴۵ء میں حسرتؔ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر یو پی اسمبلی اور ہندُستان کی دستور ساز اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے ۔سیا ست کے ساتھ ساتھ شعر و سخن کا سلسلہ بھی جاری رہا اور صحافتی ذمہ داریوں سے بھی عہدہ برآ ہوتے رہے۔’’اردوے معلّیٰ‘‘ بند ہوجانے کے بعد حسرتؔ نے ’’تذکرۂ شعرأ‘‘ کے نام سے دوسرا ادبی پرچہ جاری کیا۔ اردو شاعری میں اُصولِ تنقید پر پہلی مستند کتاب بھی حسرتؔ نے ’’نِکاتِ سخن‘‘ کے عنوان سے لکھی ۔اس سے پہلے صرف حالیؔ کی ’’مقدمہ شعر و شاعری ‘‘ موجود تھی۔۱۳؍ مئی ۱۹۵۱ء کے روز حسرتؔ کے انتقال پر پنجاب کے گورنر اور شاعر ’’سردار عبد الرب نشترؔ ‘‘ نے کہا تھا : مولانا حسرتؔ ایک عظیم شاعر ،ایک عظیم قائد اور ایک عظیم ادیب تھے اور ان سب سے بڑھ کر وہ ایک اچھے انسان تھے۔‘‘ کلام : ناقدین نے کلامِ حسرتؔ کو چار زمانوں میں رکھا ہے اور ہر دور میں غزل کی ساخت بہترین رہی ہے ۔ہمیں حسرت ؔ کی ایک بہترین غزل یاد آرہی ہے جسے سب سے پہلے ملکۂ ترنم نور جہاں نے گایا تھا ، ملاحظہ فرمائیے : خو ب رو یوں سے یاریاں نہ گئیں دل کی بے اختیاریاں نہ گئیں مئے و مینا سے یاریاں نہ چُھٹیں تیری پرہیز گاریاں نے گئیں عقل صبر آشنا سے کچھ نہ ہوا شوق کی بے قراریاں نہ گئیں دن کی صحرا نوردیاں نہ چُھٹیں شب کی اختر شُماریاں نہ گئیں طرزِ مومن میں مرحبا حسرتؔ تیری رنگیں نگاریاں نہ گئیں

Shair Collection

اشعار کا مجموعہ

Compilation of top 20 hand-picked Urdu shayari on the most sought-after subjects and poets

انتہائی مطلوب مضامین اور شاعروں پر مشتمل 20 ہاتھ سے منتخب اردو شاعری کی تالیف

SEE FULL COLLECTIONمکمل کلیکشن دیکھیں
Pinterest Share