Description
تفصیل
معروف ترین اردوکلاسیکل شاعر،19 اگست 1887ء قصبہ جلالی ( علی گڑھ) میں پیدا ہوئے اور 24 اکتوبر 1968ء کو کراچی میں بمرضِ یرقان اللہ کو پیارے ہوگئے،اصل نام : سید محمد حسین جلالوی۔والد : سید غلام حسین سجاد ۔’’اوجِ قمر‘‘ پہلا مجموعہ کلام۔زمانہ طالب علمی میں آٹھ سال کی عمر میں شاعری شروع کردی ،امیر مینائی سے اصلاح لی اور ۲۲ سال کی عمرمیں اصلاح دینے لگے،
ازل سے معتقدِ حضرتِ امیرؔ ہوں میں
اسی لکیر پہ اب تو قمر ؔ فقیر ہوں میں
زرِ قلیل نھیں ہوں کہ دیکھ لے دنیا
جو دفن رہتی ہے ، وہ دولتِ کثیر ہوں میں
ایک ہی غزل کہی تھی کہ ادبی حلقوں میں شور مچ گیا اور وہ غزل ہر ایک کی زبان تھی کہ ’’ جُھک جُھک کے دیکھتا ہوں ، جوانی کدھر گئی !‘‘۔ آپ نے معروف شاعر امیر مینائی سے فیضِ تلمذ حاصل کیا ۔سپہ گری آبائی پیشہ ۔شاعری میں اس قدر مصروف ہوئے کہ ۴۲ سال کی پختہ عمر میں محترمہ کنیزہ سید سے شادی کی ۔آپ کے لیے پاکستان کے دوسرے صدر ایوب خان نے 1959ء میں 150 رُپے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا ۔استاد قمر جلالوی ۱۱؍ ستمبر ۱۹۴۷ء کو علی گڑھ سے ہجرت کرکے کراچی تشریف لائے اور پطرس بخاری کے بھائی زیڈ اے بخاری کی وجہ سے ریڈیوپاکستان ،کراچی تک پہنچے ۔1966ء میں صدر ایوب خان نے قمرؔ جلالوی کو ۵۰۰ رُپے کی خطیر رقم سے نوازا تھا جو کسی بھی شاعر کے لیے اعزاز سے کم نھیں ۔اردو شاعری کی روایت کے آخری مقبول شاعر قرار پائے۔
خطاب : میرؔ ثانی
مجموعہ کلام :
اوجِ قمر ۔ رشکِ قمر ۔ تجلیاتِ قمر ۔ عقیدتِ جاوداں ( حمدیہ ، نعتیہ کلام)
کلام:
کبھی کہا نہ کسی سے تیرے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کِھلے
کہیں جگہ نہ ملی میرے آشیانے کو
اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو
سُنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجالوں غریب خانے کو
قمرؔ ذرا بھی نھیں تم کو خوفِ رسوائی
چلے ہو چاندنی شب میں انھیں بلانے کو