Description
تفصیل
معروف اُردو شاعر ، غزل ، نظم خصوصاً نعت کے عالمی شُہرت یافتہ شاعر ،12 اگست 1948ء کو مظفر پُور (انڈیا) میں پیدا ہوئے ۔اصل نام : تنویر الدین احمد صدیقی ،والدین کا تعلق : پھول نگر(بہار شریف)۔ماشاء اللہ بقیدِ حیات ۔امریکا میں گذشتہ ۱۰ برسوں سے مقیم ۔ذاتی رہائش بفر زون ، وی آئی پی بنگلوز،کراچی۔حمد و نعت کے بہترین شاعر ۔ایک روایت کے مطابق آپ کو آں حضرت حضرت محمد مصطفٰے ، رسولِ مجتبٰی ﷺ نے خواب میں نعت لکھنے کا حکم دیا ، آپ روتے ہوئے اُٹھے اور غسل کرکے نعت شریف کہی۔اس روز سے مجازی غزل اور نظم کو ترک کردیا اور آج تک حمد و نعت سے تعلق استوار ہے ۔معروف ادبی پرچے ’’ جہانِ حمد‘‘ نے ایک ضخیم ’’ تنویر پھولؔ ‘‘ نمبر شایع کیا ہے ،جس میں آپ کی ذات و صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔بہار شریف سے ہجرت کرکے والدین کے ساتھ آپ کراچی تشریف لائے اور ’’سو کوارٹرز ‘‘ کورنگی میں مقیم ہوئے،اس وقت (یہ 1960ء سے 1973ء تک کی بات ہے) کورنگی میں دیگر ادبی شخصیات : پروفیسر نقاش کاظمی ، جوہر سعیدی، مجیب ظفر انوار حمیدی،صہبااختر،حکیم نور احمد میرٹھی ، جمال احسانی ، بیتابؔ نظری،ڈاکٹر تقی دہلوی،لیاقت علی نیّرؔ ،علی اللہ کاظمی(یہ نقاش کاظمی کے بھائی تھے،حکیم انجم فوقی بدایونی،رشید اثرؔ (یہ بھی بدایوں شریف کے تھے) ، کیف بنارسی ، خالد علیگ ، پروفیسر محمد ظریف خان ،پروفیسر ظفرؔ جونپوری ،احسانؔ امروہوی ، پروفیسر این ڈی خان و دیگرمعروف شعرأ کرام بھی مقیم تھے
تنویر پھول نے ڈی ۔ جے سائنس کالج سے 1968ء میں انٹرنس کیا ، 1971ء میں جامعہ کراچی سے بی۔اے کیا اور پھر 1973ء میں جامعہ کراچی ہی سے ایم۔اے (اسلامی فلسفہ) فرسٹ کلاس کیا ۔زمانہ طالبِ علمی ہی سے شاعری کا آغاز کردیا ۔ساتھ ساتھ ’’اسٹیٹ بینک اوف پاکستان ‘‘ میں ملازمت بھی کرتے رہے ، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے یہ ملازمت خالص میرٹ پر حاصل کی تھی اور وہ 70ء کی دہائی تھی جب میرٹ ہی سب کچھ ہوا کرتا تھا۔تنویر صاحب 1997ء میں اس ملازمت سے بڑی عزت اور وقعت کے ساتھ رٹائر ہوئے اور آج کل امریکا میں اپنی صاحب زادی کے پاس مقیم ہیں ۔آپ نے غزل ، رباعی ، دوہا اور ہائیکو ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی اور خواب دیکھنے کے بعد حمد اور نعت ہی کہی۔آپ کا پہلا نعتیہ مجموعہ کلام ’’انوارِ حرا ‘‘ 1997ء میں منظرِ عام پر آیا۔اس مجموعے کے منظرِ عام پر آتے ہی آپ کی نعتوں کی دھوم مچ گئی۔حکومتِ پاکستان (جو علم و ادب سے بظاہر تو کوئی سروکار نھیں رکھتی اور نہ ہی اس کو خدا نے ادیبوں اور شاعروں کی عزت افزائی کی توفیق بخشی ہے،ڈاکٹر پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی) نے تنویر پھول کو اُن کی اعلیٰ خدمات پر ’’صدارتی ایوارڈ ‘‘ دیا۔یہ ایوارڈ اُن کی بچوں کے ادب کے سلسلے میں کی جانے والی خدمات کے سلسلے میں تھا۔تنویر پھولؔ صاحب نے ’’بچوں کے لیے بھی بہترین ادب تخلیق کیا ۔پاکستان کے تمام بچوں کے رسائل میں آپ کی ہزاروں نظمیں شایع ہوئیں۔آپ اس وقت بھی امریکا میں رہتے ہوئے بچوں کے لیے بدستور لکھ رہے ہیں ۔
تصانیف :
گلشنِ سخن ۔ خوشبو بھینی بھینی ۔ تنویرِ حرا ۔ انوارِ حرا ۔ رشکِ باغِ ارم ۔ تنویر حرا (جلد دوم ) ۔دھواں دھواں چہرے ۔ زبورِ سخن ۔ قندیلِ حرا ۔ چڑیا تتلی پھول(بچوں کی نظمیں ) ۔نغماتِ پاکستان ( بچوں کا ادب) ۔ ارحم الراحمین وغیرہ
نمونہ کلام :
حق پرستی چھوڑ کر یہ زر پرستی کب تلک
تیری قسمت میں لکھی دنیا کی بستی کب تلک
ظلم کی ناگن رہے گی اس کو ڈستی کب تلک
زندگی انسان کی یاں اتنی سستی کب تلک
اے پُجاری زر کے ، اے قارون کے وارث بتا
بندۂ مفلس پہ تیری چیرہ دستی کب تلک
شب گزرتی جارہی ہے تنگ ہے وقتِ نشاط
محفلِ عیش و طرب میں ہوگی مستی کب تلک
کچھ کتابوں میں ، دلوں میں ہوں گے یہ اشعار پھول
اے سخنور اس جہاں میں تیری ہستی کب تلک