Description
تفصیل
1689ء وفات ۔ خیبر پختون خواہ کے اردو اور پشتو زبان کے معروف شاعر۔پاکستانی تو نھیں کہہ سکتے لیکن آپ نے تمام پاکستانی زبانوں میں شاعری کی۔مردِ مومن اور شاہین کا تصور اقبال سے پہلے پیش کیا۔1624 ء اکوڑہ خٹک میں پید ا ہوئے ۔ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں آپ کو گرفتار کرلیا کیا۔خوش حال خان خٹک نے تقریباً 47000 اشعار یادگار چھوڑے ہیں ۔دو سو سے زائد کتابیں آپ سے منسوب ہیں ۔بیس سال کی عمر میں شاعری شروع کی۔اپنی شاعری میں رزم اور بزم کو یکجا کرکے لطیف جذبوں کا کھل کر اظہار کیا ۔انہوں نے اپنے کلام میں زبان و مکان کی قید سے آزاد ہوکر نئے خیالات کی شمع روشن کی ۔ستائیس سال کی عمر میں اپنے قبیلے کی قیادت سنبھالی ۔مغلیہ دور میں چار سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔اس قید کا انہوں نے اپنے کلام میں بھی تذکرہ کیا ہے۔ان کی بہت ساری تصانیف اب دست یاب نھیں ہیں تاہم ان کی تصانیف نے انھیں پختون قوم کا ایک ممتاز ’’شاعر‘‘ بنادیا ۔خوش حال خان خٹک کی شاعری آج بھی نوجوان نسل کے لیے مشعلِ راہ ہے اور پاکستانی اسلامی اقدار کی پاسدار بھی ہے۔
قابلِ ذکر تصانیف :
باز نامہ ۔ فضل نامہ ۔ دستار نامہ ۔ فرح نامہ وغیرہ
آپ کی شاعری میں تغزل سے بڑھ کر واقعاتی رنگ موجود ہے ۔بیشتر رجزیہ اشعار ہیں ۔خوش حال خان بیک وقت صاحبِ تیغ و قلم ، فلسفی اور شاعر ، افغان قوم کے راہ نما ، حکیم ، خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے پہلے شاعر تھے۔
نمونہ کلام :
ہرہ چاد پنبتانہ تر مغل بنۂ دہ
اتفاق ور شخہ نشۂ دیر ارمان
دا بھلول اود شیر شاہ خبرے اورم
چہ پہ ہند کنبے پنبتانہ وو بادشاہان
کہ توفیق د اتفاق پنبتانۂ مومی
زورِ خوش حال بہ دوبارہ شی پہ دا حوان
پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال نے بھی خوش حال خان خٹک پر ایک نظم ’’ خوش حال کی وصیت ‘‘ لکھی تھی ، جس کا ایک شعر نہایت مشہور ہوا کہ
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند