Description
تفصیل
معروف مزاح نگار اور اردو شاعر، شیر محمد خان اصل نام ۔ 15 جون 1927ء کو جالندھر( پنجاب) میں پیدا ہوئے اور 11 جنوری 1978 ء کو پچاس برس کی عمر میں لندن میں انتقال کیا ۔ابن انشاء کی ہمہ گیر شخصیت میں ایک شاعر بھی موجود ہے تو ایک کالم نویس بھی ، بچوں کا ادیب بھی ہے تو سفرنامہ نگار بھی ۔طبیعت کے انتہائی نفیس ، قابل ترین آدمی تھے۔جو ایک مرتبہ آپ سے مل لیتا وہ آپ کی اعلیٰ صفات کی بنا پر آپ ہی کا ہو رہتا ۔
ابن انشأ کو قدرت نے ایک درد مند دل دیا تھا ۔وہ علم وادب سے محبت کرنے والے انسان تھے اور بچوں کی طرح معصوم تھے۔معروف شاعر جمیل الدین عالیؔ سے اُن کے دوستانہ مراسم رہے۔جمیل الدین عالیؔ ہی نے ابنِ انشأ کو ’’انشاء جی‘‘ کہا اور پھر ابن انشاء ’’انشاء جی ‘‘ ہی ہوگئے۔ابن انشاء نے بہترین اردو شاعری کی ہے ، شاعری کی کئی کتابیں آپ کی زندگی ہی میں طبع ہوئیں ۔ان میں ’’ چاند نگر ‘‘ ، ’’دل وحشی ‘‘ ، ’’اُس بستی کے اِک کوچے میں ‘‘ ، ’’ چینی نظمیں ‘‘ (ترجمہ) وغیرہ نے عالمگیر مقبولیت حاصل کی۔ابن انشاء کی ایک معروف غزل ہے !
انشاء جی اُٹھو اب کُوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کو سُکوں سے کیا مطلب ، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں دیکھو تو سہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا ، زنجیر پڑی دروازے پہ
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو ، سجنی سے کرو گے بہانا کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں ،کیوں بن میں نہ جا بسرام کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا
میرے پاس ابن انشاء کی یادوں کے خزانے ہیں اور اگر سب کچھ لکھنے بیٹھوں تو اس انسائکلو پیڈیا urduinc.com کے قوانین اس طوالت کی اجازت شاید نہ دیں ، لیکن جو سِرا پکڑتا ہوں ،ابن انشاء جی کا مُسکراتا چہرہ سامنے آجا تا ہے۔۷۰ء کی دہائی کے آخر میں وہ مجھے اردو بازار کی ایک عمارت’’اورنگ زیب مارکیٹ‘‘ میں ملے ۔وہاں سے بچوں کا ایک ماہانہ پرچہ ’’ہونہار‘‘ شایع ہوا کرتا تھا اور میں رسالے کے مُدیر مظہر ہوسف زئی صاحب (علیگ) کو اپنی کہانیاں دینے جایا کرتا تھا۔ابنِ انشاء ہمیشہ کی طرح خوش و خرم تھے ،پوچھنے پر بتایا کہ اب میں اسی عمارت کے ایک دفتر سے ’’ رنگا رنگ کتاب کلب‘‘ کے تحت بچوں کی کہانیاں شایع کررہا ہوں۔کشور ناہید سے بھی نگر نگر کی کہانیوں کے ترجمے کرائے ہیں اور نیشنل بک کونسل (اُس وقت یہی نام تھا) کے تحت چھاپے ہیں۔اب بچوں کا ادب ایک وقیع سلسلہ ثابت ہوگا۔ساتھ ہی خواتین کے ماہانہ ڈائجسٹ ’’ خواتین ڈائجسٹ ‘‘ ، ’’کرن ‘‘ اور ’’شعاع ‘‘ وغیرہ بھی شروع کیے ہیں جس کے مُدیرِ اعلا اُن کے بھانجے محمود بابر فیصل مرحوم تھے۔راقم بھی کبھی کبھار ان تحریروں کی نوک پلک سنوار دیا کرتا تھا اور بچوں کے لیے پابندی سے لکھا کرتا تھا ۔ابن انشاء شمالی ناظم آباد بلاک ڈبلیو میں رہا کرتے تھے۔ملاقاتوں کے دوران ہی ایک مرتبہ ابنِ انشاء صاحب نے بتایا کہ انہوں نے بچوں کے لیے بھی نظمیں کہی ہیں اور اُن کی ایک چھوٹی بہن ہوا کرتی تھیں ، جنکا نام ’’ بلقیس بانو ‘‘ تھا اور گھر بھر اُن کو پیار دُلار سے ’’ بلّو‘‘ کہا کرتا تھا ۔ابنِ انشاء نے بتایا کہ وہ روزانہ بلّو کے لیے ایک نظم کہا کرتے تھے اور جب بہت ساری نظمیں ہوگئیں تو تمام نظموں کو ’’ بلّو کا بستہ ‘‘ کے عنوان سے یکجا کردیا گیا ۔ قارئین کرام ،یقین فرمائیے یہ نظمیں بچوں کے لیے ایسی بہترین معیاری نظمیں ہیں کہ ایک بار پڑھ لو تو دل و دماغ میں گھر کر لیتی ہیں ۔
مثلاً ’’ بلو کا بستہ ‘‘ ، ’ ’ بلو کا بھالو ‘‘ ، ’’ بلو کی مُرغی ‘‘ وغیرہ وغیرہ !
ہمارے ذہن میں جو نظمیں ہیں وہ پیش کرتا ہوں ۔
’’ بلو کی مُرغی ‘‘
بلو کی مُرغی
کھاتی ہے ڈنڈے
دیتی ہے انڈے
سنڈے کے سنڈے
بلّو کی مُرغی
فاقوں کی ماری
کھاتی ہے تڑکے
اُٹھ کے نہاری
ہونے دو اس کو
کچھ اور بھاری
کھائیں گے مل کے
اس کی نہاری
ہوسکتا ہے کہ کچھ مشاہیرِ ادب کی نظر میں یہ من موہنے اشعار ، شاعری کی ممکنہ شرائط پر پورے نہ اترتے ہوں لیکن ان اشعار میں جو نغمگی اور تازگی ہے وہی ابن انشاء کا خاصہ رہا۔آپ سرکاری دورے پر چِین بھی گئے اور وہاں ’’ بیجنگ یونیورسٹی‘‘ کے شعبہ اُردو میں اُردو کے طالب علموں سے بھی ملے ۔ابن انشاء کو چینیوں کا اُردو رسم الخط اور اردو میں مہارت دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی اور اس پوری وارداتِ قلبی کو انھوں نے اپنے سفرنامے ’’ چلتے ہو تو چین کو چلیے ‘‘ میں بیان کردیا ہے۔
ابن انشاء ایک ماہر سفر نامہ نگار بھی تھے۔آپ کے سفرناموں میں : ’’ آوارہ گرد کی ڈائری ‘‘ ، ’’ ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں ‘‘ ، ’’ دُنیا گول ہے ‘‘ وغیرہ نہایت مقبول ہیں۔طنز و مزاح کی کتابوں میں ’’ خمارِ گندم ‘‘ اور ’’ اردو کی آخری کتاب ‘‘ ، اردو مزاح میں اپنا ثانی نھیں رکھتیں۔ابن انشاء نے بہترین اردو شاعری کی ہے۔آئیے آپ کو ان کی ایک غزل کے چند اشعار پڑھواتے ہیں:
دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے ، اب آن ملو تو بہتر ہے
اس بات سے ہم کو کیا مطلب ، یہ کیسے ہو یہ کیونکر ہو
اک بھیک کے دونوں کاسے ہیں،اک پیاس کے دونوں پیاسے ہیں
ہم کھیتی ہیں ، تم بادل ہو ، ہم ندیا ہیں ، تم ساگر ہو
یہ دل ہے کہ جلتے سینے میں ، اک درد کا پھوڑا الہڑ سا
نا گُپت رہے نہ پھوٹ بہے ، کوئی مرہم ہو کوئی نشتر ہو
سرطان کے موذی مرض نے آپ کی جان لے لی اور لندن میں ۱۱ ؍ جنوری ۱۹۷۸ ء کے روز آپ کا انتقال ہوگیا۔