Description
تفصیل
اپنی صدی کے نمایاں وصف کے حامل خیالات رکھنے والے یکتا شاعر۔13؍ فروری 1911ء کو قصبہ کالا قادر ، سیال کوٹ میں پیدا ہوئی۔آج کل یہ علاقہ فیض کی نسبت سے’’فیض نگر‘‘ کہلاتا ہے اور 20 فروری 1984ء کو لاہور میں انتقال کیا۔راقم السطور اس وقت اسلام آباد میں ایک سرکاری تقریب بھُگتا کر آرہا تھا۔کراچی ائر پورٹ پر اُترتے وقت ہُو کا عالم محسوس کیا،ٹھیلے والے جو اسٹار گیٹ کے پاس ٹیکسیوں کے اڈّے پر اپنی اپنی بولیوں میں بولتے رہتے تھے،خاموش تھے ۔راقم کے دریافت کرنے پر ایک سموسے والے سیدھے سادھے آدمی نے بتایا کہ:’’بابو جی ۔۔۔آج تو کسی بڑے آدمی کا انتقال ہوا ہے شید(شاید) بڑی ویرانی ہے اِتّھے!‘‘میری آنکھوں میں پانی اُترنے لگاا ور راقم نے اُس سیدھے سادھے شخص کو بتایا کہ آج فیض احمد فیضؔ جیسے انٹلکچوئل سے پاکستان محروم ہوگیا ہے۔محترمہ شائستہ زید نے پی ٹی وی کی انگریزی خبروں میں یہ روح فرسا خبر سنائی تھی اور پی ٹی وی نے اپنی معمول کی نشریات روک کر سوگ منایا تھا۔خیر۔۔۔اُس روز ہم پر ’’بڑے آدمی‘‘ کی تعریف ظاہر ہوگئی۔اسی دن کراچی آکر ہم نے ایک مقامی اخبار کے سینیر رپورٹر صاحب کو اپنے تعزیتی پیغام میں لکھوایا:’’ فیض نہ صرف ایک شخص تھے بلکہ شخصیت تھے، وہ نہ صرف مشہور تھے بلکہ مقبول بھی تھے!‘‘میری نظروں میں وہ سموسے والا گھوم رہا تھا کہ ’’ صاحب جی آج کسی بڑے آدمی کا انتقال ہوا ہے شاید!‘‘
سمجھ میں نھیں آرہا کہ فیضؔ صاحب کے بارے میں لکھنے کا آغاز کہاں سے کروں ۔ میری انگلیاں ’’کی بورڈ‘‘ پر چلنے سے مُنکر ہیں اور ذہن کے پردے پر فیض صاحب کی زندگی کے واقعات ، روس میں ۱۹۶۰ء میں اُن کو ملنے والے ’’ لینن پرائز‘‘ کی روداد ، راول پنڈی سازش کیس میں ان کو تین مرتبہ قید کیے جانے کے شب و روز۔۔۔۔یہ تمام مناظر بڑی تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں اور کراچی ائر پورٹ پر فیض صاحب اُترے ہیں اور معروف مُغنّیہ اللہ سبھائی (ملکہ ترنم نور جہاں) بے ارادہ اُن سے جا کر لپٹ گئی ہیں اور بھائی آپ خیریت سے تو ہیں ،پوچھ رہی ہیں۔یہ فیض صاحب کی مقبولیت تھی،اسی لیے تو میں نے رپورٹر کو لکھوایا تھا کہ فیض ؔ نہ صرف مشہور بلکہ ’’مقبول‘‘ بھی تھے۔
فیض صاحب ایک معروف صحافی بھی تھے اور پروفیسر بھی رہے۔عبداللہ ہارون کالج میں آپ نے ’’پرنسپل‘‘ کی حیثیت سے بھی تدریسی وانتظامی خدمات سر انجام دیں ۔اس کے ساتھ مقبول ترین انگریزی روزنامہ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔آپ کو انگریزی ، اُردو ، روسی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔شاعری میں غزل اور نظم آپ کی خصوصی مہارتیں قرار پائیں ۔
فیض صاحب کے اعزازات کی طویل فہرست ہے۔تاہم جتنے میری یادداشت میں ہیں ، ان میں :
ایم بی ای ایوارڈ ۱۹۴۶ء ۔ نگار ایوارڈ ۱۹۵۳ء ۔ لینن امن انعام ۱۹۶۰ء ۔نشانِ امتیاز ۱۹۹۰ء ۔ ایویسینا انعام ۲۰۰۶ ء (بعد از مرگ) ۔فیض صاحب کا پورا گھرانہ علمی اقدار کا حامل ہے ۔ بیگم جرمن نژاد ایلس فیض ، دو صاحبزادیاں سلیمہ ہاشمی اور منیزہ ہاشمی ،داماد پروفیسر شعیب ہاشمی(انگریزی ادبیات کے پروفیسر اورپاکستان ٹیلی وژن کے کرتا دھرتا) وغیرہ ان کے علمی و ادبی خانوادے میں شامل مشہور شخصیات ہیں۔بعض ناقدین کے نزدیک آپ غالب اور علامہ اقبال کے بعد اُردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔
’’انجمن ترقی پسند‘‘ تحریک کے فعال رُکن اور ایک ممتاز ’’ کمیونسٹ‘‘ تھے۔آپ نے ۱۹۳۲ء میں گورنمنٹ کالج ، لاہور سے انگریزی ادب میں ایم ۔ اے کیا اور بعد میں اورینٹل کالج ، لاہور سے عربی میں بھی ایم۔ اے کیا۔آپ کے اور علامی اقبال ؒ کے اُستاد محترم مشترک تھے یعنی مولوی شمس الحق۔
فیض صاحب نے ۱۹۵۱ء میں ایم اے او کالج ، امرتسر سے بحیثیت لیکچرر اپنے عملی سفر کا آغاز کیا اور پھر ’’ ہیلے کالج‘‘ لاہور میں پروفیسر مقر ر ہوئے۔اس سے پیشتر ۱۹۳۰ء میں آپ ’’ایلس فیض‘‘ سے شادی کرچکے تھے۔۱۹۴۲ء میں آپ فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوئے اور محکمہ تعلقاتِ عامہ میں کام کیا۔۱۹۴۳ء میں آپ میجر اور ۱۹۴۴ء میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پاگئے۔قیامِ پاکستان کے وقت آپ فوج سے مستعفی ہوکر لاہور تشریف لائے اور ۱۹۵۹ء میں پاکستان آرٹس کونسل میں سیکریٹری مقرر ہوئے۔۱۹۶۴ء میں لندن سے واپسی پر آپ ’’ عبداللہ ہارون کالج، کراچی‘‘ کے پرنسپل مقرر ہوئے۔۹؍ مارچ ۱۹۵۱ء کو آپ راولپنڈی کیس میں گرفتار کیے گئے۔اس دوران آپ نے اپنا مجموعہ کلام ’’زنداں نامہ‘‘ ترتیب دیا ۔
درِ قفس پہ اندھیرے کی مُہر لگتی ہے
تو فیضؔ دل میں ستارے اُترنے لگتے ہیں
راول پنڈی سازش کیس کو فیض صاحب نے اپنے ایک شعر میں بیان کیا :
وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
تم آئے ہو نہ شبِ انتظار گزری ہے
تلاش میں ہے سحر بار بار گزری ہے
ہو ش میں آئے تو بتلائے تیرا دیوانہ
دن گذارا ہے کہاں ، رات کہاں گذری ہے
فیض صاحب کی شاعری کے مجموعوں میں نقش فریادی ۔ دستِ صبا ۔ زنداں نامہ ۔ دستِ تہہ سنگ ۔ سر وادی سینا ۔شام شہر یاراں۔مرے دل مرے مسافر ،میزان وغیرہ نہایت مشہور ہوئے۔وفات کے بعد آپ کا کلام ’’ نسخہ ہائے وفا‘‘ کے عنوان سے انتخاب کرکے یکجا کیا گیا۔آپ کیاُردو خطوط کا مجموعہ’’ صلیبیں میرے دریچے‘‘ کی عنوان سے طبع ہوا۔آپ کی کئی نظموں نے عالمگیر شہرت حاصل کی ، ان میں ’’فلسطینی بچے کے لیے لوری ‘‘ ، ’’ایک ترانی فلسطینی بھائیو کے لیے !‘‘ ،’’ محبت ‘‘ ، ’’تنہائی ‘‘ وغیرہ بہت مشہور ہوئیں ۔ فیض صاحب کا محبوب اُن کا وطن ہے۔اس وقت میرے ذہن میں فیض ؔ صاحب کی شہرۂ آفاق نظم ’’ بہار آئی۔۔۔‘‘ موجود ہے،پیشِ خدمت ہے!
بہار آئی تو جیسے اک بار لوٹ آئے ہیں پھرعدم سے
وہ خواب سارے ،شباب سارے جو تیرے ہونٹوں پہ مرمٹے تھے
جو مِٹ کے ہر بار پھر جیے تھے نکھر گئے ہیں گلاب سارے
جو تیری یادوں سے مُشک بُو ہیں جو تیرے عشاق کا لہو ہیں
اُبل پڑے ہیں عذاب سارے
ثواب سارے۔۔۔
ملالِ احوالِ دوستاں بھی خُمارِ آغوشِ مے کشاں بھی
غُبارِ خاطر کے باب سارے تیرے ہمارے
سوال سارے ،جواب سارے بہار آئی تو کھل گئے ہیں
نئے سرے سے حساب سارے
تیرے ہمارے
بہار آئی تو جیسے اک بار لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے
وہ خواب سارے ، شباب سارے