Description
تفصیل
علمِ عروض (بہ عین مفتوح) کلامِ منظوم کی میزان کا نام ہے جس سے موزوں اور ناموزوں کلام میں تمیز کی جاسکتی ہے۔ عروض شعر کاے وزن کی پرکھ یا جانچ پڑتال کے قاعدوں کا نام ہے۔ اس کا موضوع شعر ہے برس حیثیت کہ وہ وزن رکھتا ہے یا غلط وزن والا ہے۔ اگویا عروض شعر کے وزن کے علم کو کہتے ہیں۔ اس میں بحور، ارکان اور زحافات کا تذکرہ ہوتا ہے۔
علمِ عروض کی اختراع کا سہرا "خلیل بن احمد بصری" کے سر پر ہے۔ جو 100 ھ میں بمقامِ بصرہ پیدا ہوا۔ اس نے ’’پندرہ بحریں‘‘ ایجاد کیں۔
(1) ہزَجَ۔ (2)رَجَز۔ (3) رَمَل۔(4)مُتَقَارِب۔(5)کامِل۔(6)مَنْسَرحِ۔(7)مُضَارعِ۔(8)شرِیع۔(9)خفیف۔(10)مُتحبث۔(11)مُقتضِب۔(12)طَوَیِل۔(13)مَدِید(14)بَسیطِ۔(15)وَافِر
کُل 19بحریں اب تک ایجاد ہوئی ہیں اور ایک قطعہ میں نظم ہیں۔
رِجز، خفیف، رِمل، منسرح، دگر، تحبث
مشاکل و متقارب، سریع و مقتضب است
بسیط و وافر و کامل، نرج، طویل و مدید
مضارع و متدارک، قریب و نیز جدید ۔