Shair

شعر

ہم نے ساقی کے کہیں ہونٹ جو ٹک چوس لیے
کوش ہو سب اہل خرابات کے پا بوس کیسے

(انشا)

مرے ہم سفر‘ تجھے کیا خبر!
یہ جو وقت ہے کسی دُھوپ چھاؤں کے کھیل سا
اِسے دیکھتے‘ اِسے جھیلتے
مِری آنکھ گرد سے اَٹ گئی
مِرے خواب ریت میں کھوگئے
مِرے ہاتھ برف سے ہوگئے
مِرے بے خبر‘ ترے نام پر
وہ جو پُھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر‘
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو ایک ربط تھا درمیاں وہ بکھر گیا
وہ ہَوا چلی
کسی شام ایسی ہَوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِ شاخِ جاں‘ وہ گرادیئے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر‘ وہ اُڑا دیئے
وہ جو راستوں کا یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مِٹا دیئے!
مرے ہم سفر‘ ہے وہی سفر
مگر ایک موڑ کے فرق سے
ترے ہاتھ سے مرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے‘ اُسے کاٹتے
مرا سارا وقت نکل گیا
تو مِرے سفر کا شریک ہے
میں ترے سفر کا شریک ہوں
پہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقیں سے غبار میں
اُسی رہگزر کے حصار میں
ترا راستہ کوئی اور ہے
مرا راستہ کوئی اور ہے

(امجد اسلام امجد)

خلط کی خوبی، ہونٹ توڑ لیا
جسے چاہا اسے بھنبھوڑ لیا

(انشا)

پھوٹیں گے اب نہ ہونٹ کی ڈالی پہ کیا گلاب!
آئے گی اب نہ لوٹ کے آنکھوں میں کیا، وہ نیند!

(امجداسلام امجد)

برہا ڈسن کے درد تھیں بیاکل پڑے نت زرد ہو
بے کس ہونٹ جا بیل تے جیوں پات بپیلا جھڑ پڑے

(شاہی)

اے کمینے دانت ہے سوہا نہیں
ہے ادھوری ہونٹ تو اس کا نہیں

(حسن علی خاں)

First Previous
1 2 3 4 5 6
Next Last
Page 1 of 6
Pinterest Share