سوا لنگوٹ کے تن پر تھی بس رمائی بھبو
یوں ہی وہ برف میں پالے میں رہتا ماں کا پوت
(جگ بیتی)
|
منکر پاک ہے وہ شیشے کی خوں ریزی سے
مرد ماں دیکھو تو پھر آنکھیں ہیں کیوں لال اس کی
(جوشش)
|
کیا زیست پھر ان کی جنھیں ماں باپ نہ بخشیں
تیور بھی جو میلے ہوں تو دودھ آپ نہ بخشیں
(انیس)
|
وئی ماں برے یہ عورتاں کرتیاںبدی بیشک تو کوئی
لاکھیاں سو جھوٹیاں‘ سوگنداں یک کے اوپر یک ڈھولتیاں
(ہاشمی)
|
مایوسِ وصل اُس کے کیا سادہ مُرد ماں ہیں
گُزرے ہے میر اُن کو امیدوار ہر شب
(میر تقی میر)
|
ماں ہوں میں کلیجہ نہیں سینے میں سنبھلتا
صاحب مرے دل کو ہے کوئی ہاتھوں سے ملتا
(انیس)
|