آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
|
بے وقت اگر جاؤں گا سب چونک پڑیں گے
اک عمر ہوئی دن میں کبھی گھر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
|
جس دن سے چلا ہوں مری منزل پہ نظر ہے
آنکھوں نے کبھی میل کا پتھر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
|
یہ پھول مجھے کوئی وراثت میں ملے ہیں
تم نے مرا کانٹوں بھرا بستر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
|
پتھر مجھے کہتا ہے مراچاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھوکر نہیں دیکھا
(بشیر بدر)
|
ناریل کے درختوں کی پاگل ہوا کھل گئےبادباں لوٹ جا لوٹ جا
سانولی سرزمیں پر میں اگلے برس پھول کھلنے سے پہلے ہی آجاؤں گا
(بشیر بدر)
|