برسوں کے بعد دیکھا اِک شخص دِلُربا سا اب ذہن میں نہیں ہے پر نام تھا بھلا سا احمد فراز
|
خلقت کے آوازے بھی تھے بند اس کے دروازے بھی تھے پھر بھی اس کوچے سے گزرے‘ پھر بھی اس کا نام لیا ہے احمد فراز
|
غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کرلو نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں احمد فراز
|
اپنی آشفتہ مزاجی پہ ہنسی آتی ہے دشمنی سنگ سے اور کانچ کا پیکر رکھنا احمد فراز
|
اور ہوں گے کہ جو آئینہ صفت جیتے ہیں میں تو مرجاؤں اگر کوئی مقابل نہ رہے احمد فراز
|
تیری نظروں میں مرے درد کی قیمت کیا تھی مرے دامن نے تو آنسو کو گہر جانا تھا احمد فراز
|