Shair

شعر

ہونٹ پپڑاے جو اس کی گرمئی صحبت سے رات
جھاڑ میں شمعیں پگھل کر موم روغن ہو گئیں

(امانت)

دانتوں کے تلے ہونٹ نہ غصے میں دباؤ
ہو خونِ مسیحا تو نہ بہرے کی کنی سے

(الماس درخشاں)

دہن کو دیکھ ترے ہونٹ چاٹتے رہ گئے
پھرا نہ قند سے منہ چاشنی چشیدوں کا

(انتخاب)

کس کے آنسو چھپے ہیں پھولوں میں
چومتا ہوں تو ہونٹ جلتے ہیں

(بشیر بدر)

وہ عجیب پھول سے لفظ تھے، ترے ہونٹ جن سے مہک اٹھے
مرے دشتِ خواب میں دور تک، کوئی باغ جیے لگا گئے

(امجد اسلام امجد)

درد کی رہگزار میں، چلتے تو کس خمار میں
چشم کہ بے نگاہ تھی، ہونٹ کہ بے خطاب تھے

(امجد اسلام امجد)

First Previous
1 2 3 4 5 6
Next Last
Page 1 of 6
Pinterest Share