Description
تفصیل
عمل اور ردِعمل کے نتیجے میں تربیت بہتر نتائج پیدا کرسکتی ہے کیونکہ اس دوران مُربّی کو جو ردِعمل حاصل ہوتا ہے وہ اُسے اپنی حکمتِ عملی مرتب کرنے کے سلسلے میں بہتر طور پر استعمال کرسکتا ہے۔
جانوروں کے معاملے میں یہ طریقۂ کار زیادہ اہمیت کا حامل ہوجاتا ہے کیونکہ جانوروں سے اِبلاغ اُس طور سے نہیں ہوسکتا جیساکہ انسانوں کے ساتھ ہوسکتا ہے۔ لہٰذا جانوروں کو سِدھانے والے کے ذہن میں سب سے پہلے یہ بات ہوتی ہے کہ کن مقاصد کے لئے انہیں کس مخصوص جانور کو تربیت دینا ہے۔ ایک اچھا ساتھی بنانے کے لئے، حفاظت کے لئے، تفریح کے لئے یا کسی جاسوسی کے مقصد کے لئے؟
سِدھانے والے کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے جانوروں کے ساتھ سختی بھی کرنا پڑتی ہے، سزائیں بھی دینا پڑتی ہیں۔ تربیت کار کے لئے صرف عمل اور ردِ عمل کا گہرا مطالعہ سودمند ثابت ہوتا ہے۔ اس کے لئے کوئی قانون یا اُصول وضع نہیں کیا جاسکتا۔
ہر جانور کو سدھانے کے لئے تربیت دینے والے کو اُس جانور کی عادات و اطوار سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے، اُس کی پسند و ناپسند، اُس کی جسمانی قوت اور ذہنی صلاحیت، اُس کی پسندیدہ و ناپسنیدہ خوراک‘ اور سب سے اہم بات یہ کہ تربیت کار اور جانور کے درمیان ایک تلمیذی رشتہ قائم ہونا ازبس ضروری ہے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ تربیت کار کو جانوروں کی اس انداز سے تربیت کرنا چاہئے کہ وہ اپنے مُربّی کے مزاج کو سمجھ سکیں۔
معروف مزاح نگارمُشتاق احمد یوسفی یاد آگئے کہ بزرگوار کو اپنے ستّر سالہ گھوڑے سے ایسی محبت اور اُنسیت ہوگئی تھی کہ گھنٹوں اُس کے منھ سے اپنا منھ بِھڑا کر بہو اور بیٹوں کی شکایتیں لگایا کرتے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ گھوڑا جو شے کھانے سے انکار کردیتا،وہ بزرگوار اُسے پُچکارتے ہوئے خود کھالیا کرتے۔